راه وفا کی صلیب پر از قلم کلثوم خان سواتی
قسط نمبر1
آج دوسرا دن تھا آسمان پہ روئ کی طرح سفید بادل تھے لیکن آسمان پر نیلا رنگ بہت اٹھ رہا تھا پرندوں کو بھی یہ موسم بھا رہا تھا تبھی غول در غول پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھول رہی تھی لان میں موجود سرخ سفید گلاب پر شبنم کے قطرے تھے اور سورج کی کرنیں پڑنے سے اسکے حسن کو دوبالا کر رہی تھیں
وہ کتنے ٹائم سے بالکونی سے حسین مناظر دیکھ رہی تھی جب نوراں نے خلل ڈالا
چھوٹی بی بی آپ کا فون ہے"
وہ چونکی اور اگلے ہی پل دھڑ دھڑ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں رکھے کریڈل سے ریسیور اٹھانے لگی
"بيلو 11ساریہ میں عاتکہ بول رہی ہوں تم کب
آؤ گی کتنے دن ویٹ کرنا ہے"
اراده جلدی کا ہے لیکن اب ماما تو مان
جائیں نا "
اوکے تم جلدی آنا سر مظہر نے کہا ہے
پرسوں جانا ہے"
"اوکے
اس نے بے دلی سے فون رکھا ساریہ اعجاز ترمذی کی اکلوتی اولاد تھی یونیورسٹی کی طرف سے پکنک کاموقع ملا تھا لیکن صباحت بیگم ساریہ کی جدائی کا سننا بھی گوارا نہیں کر سکتی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ہفتہ بعد گھر آتی اعجاز ترمذی بار بار سمجھا رہے تھے
بیگم وہ اب بچی نہیں ہے کہ اپنا
خیال نہ رکھ سکے
آپ کو کیا پتہ اعجاز وہ اپنا کھانا بھی وقت پر نہیں کھاتی ایسے میں اگر وہ بیمار ہوئی تو کون اس کا خیال
رکھے گا"ارے بیگم مجھے معلوم ہے آپ بہت
پریشان ہوتی ہیں لیکن ہمیں اس کی جزبات کا بھی خیال رکھنا ہو گا ایسے
اس میں خود اعتمادی بڑھے گی "
"آپ بھی بس بیٹی کی ہی سائڈ لیں"
انہوں نے صوفہ کشن گود میں لیا اور صوفے پر براجمان ہوئیں اور آنکھیں سختی سے میچ لیں اعجاز ترمزی مسکرانے لگے
کانچ کا خوبصورت گلاس وہ اپنے گلابکی پنکھڑیوں کی طرح سرخ لبوں سے
لگا رہی تھی اسکے آئفون کی بیل ہوئی
کال پک کر کے آئی فون کان سے لگایا اور خود گرنے والے انداز میں اپنے جہازی سائز بیڈ پر براجمان ہوئی
السَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ كدهر ہیں جناب اکیلے اکیلے پکنک منایا جا رہا ہے اور ہم ناچیزوں کو یاد تک نہیں
کیا
بھاڑ میں جاؤ تم تو میرا مذاق ہی
اڑاتے رہتے ہو مرو تم“
ساریہ غرائی اب وہ اٹھ کے بیٹھ گئمیری کیا مجال جو مہ پارہ کا پارہ ہائی کروں اچھا سیریسلی بتاؤ جاؤگی ؟“ فہد مسکراتے ہوۓ گویا ہوا
فہد" ماما جانے نہیں دیتی وہ کہتی ہیں میں بہت لاپرواہ ہوں کہیں کھو گئ تو کیا ہو گا اب تم بتاؤ میں دودھ پیتی بچی تو نہیں کہ خود کی کٹر نہ کر سکوں
وہ معصومیت سے گویا ہوئی تو فہد
بولا
No comments:
Post a Comment