Wednesday, 27 November 2024

Einstein Turned Down Israel Presidency

 Did you Know🤔


As a Nobel Prize-winning physicist and the creator of the world's most famous equation, Albert Einstein had an impressive resume. But there was one notable title he turned down: President of Israel.
 
Israel's first president, Chaim Weizmann, said that Einstein was "the greatest Jew alive." So, upon Weizmann's death on November 9, 1952, only one successor seemed a natural fit.
 
As such, the Embassy of Israel sent a letter to Einstein on November 17, officially offering him the presidency.
 
The letter said he would have to move to Israel, but he wouldn't have to worry about the job being a distraction from his other interests. It was just the presidency, after all.
 
"The Prime Minister assures me that in such circumstances, complete facility and freedom to pursue your great scientific work would be afforded by a government and people who are fully conscious of the supreme significance of your labors," Abba Ebban, an Israeli diplomat, wrote.
 
And despite Einstein's age of 73 at the time, he would have been a popular choice. For one thing, as a German-born professor who found refuge in America during Hitler's rise to power, he had been a long-time advocate for the establishment of a persecution-free sanctuary for the Jews.
 
"Zionism springs from an even deeper motive than Jewish suffering," he is quoted as saying in a 1929 issue of the Manchester Guardian. "It is rooted in a Jewish spiritual tradition whose maintenance and development are for Jews the basis of their continued existence as a community."
 
Furthermore, Einstein's leadership in establishing the Hebrew University of Jerusalem suggested that he might be a willing candidate. Proponents thought his mathematics expertise would have been useful to the burgeoning state.
 
"He might even be able to work out the mathematics of our economy and make sense of it," one statistician said to TIME magazine.
 
However, Einstein turned the offer down, insisting that the man whose last name is synonymous with "genius" was not qualified. He also cited old age, inexperience, and insufficient people skills as reasons he wouldn't be a good choice. (Imagine someone turning down a presidency based on a lack of experience, old age, and an inability to deal properly with people.)

"All my life, I have dealt with objective matters. Hence I lack the natural aptitude and the experience to deal properly with people and to exercise official functions," he wrote.
 

Though resolute in his decision, Einstein hoped it wouldn't reflect badly on his relationship with the Jewish community, a connection he called his "strongest human bond."

Tuesday, 26 November 2024

Amazon Affaliate Earning in detail urdu Script

 

ایمیزون ایسوسی ایٹس پروگرام پر کام کرنے کا تفصیلی طریقہ کار



---


1. ایمیزون ایسوسی ایٹس اکاؤنٹ بنائیں


سائن اپ کریں:

ایمیزون ایسوسی ایٹس کی ویب سائٹ پر جائیں اور اپنے موجودہ ایمیزون اکاؤنٹ سے سائن اپ کریں یا نیا اکاؤنٹ بنائیں۔


معلومات فراہم کریں:

اپنی ویب سائٹ، بلاگ، سوشل میڈیا پیجز یا کسی بھی پلیٹ فارم کے بارے میں تفصیلات دیں جہاں آپ پروڈکٹس کو پروموٹ کریں گے۔


نِش (Niche) منتخب کریں:

کسی خاص پروڈکٹ کیٹیگری پر توجہ مرکوز کریں جو آپ کے ناظرین کے لیے زیادہ موزوں ہو۔




---


2. اپنی ایفلیٹ لنکس حاصل کریں


پروڈکٹ لنکنگ:

لاگ اِن کرنے کے بعد، ایمیزون ڈیش بورڈ میں پروڈکٹس تلاش کریں اور "Get Link" پر کلک کر کے اپنا منفرد لنک حاصل کریں۔


لنک کی کسٹمائزیشن:

آپ لنک کو ٹیکسٹ، امیج، یا ٹیکسٹ+امیج کی شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں، جو بھی آپ کے پلیٹ فارم کے لیے مناسب ہو۔




---


3. پروڈکٹس کو مؤثر طریقے سے پروموٹ کریں


کنٹینٹ مارکیٹنگ:

دلچسپ اور معلوماتی مواد بنائیں جیسے:


بلاگ پوسٹس (پروڈکٹ ریویوز، کمپیریزن)


سوشل میڈیا پوسٹس


یوٹیوب ویڈیوز (ان باکسنگ، ٹیوٹوریلز)


ٹک ٹاک ویڈیوز (شارٹ ریویوز یا ڈیمو)



ایس ای او (SEO):

کنٹینٹ میں متعلقہ کی ورڈز استعمال کریں تاکہ وہ گوگل پر بہتر رینک ہو۔


ای میل مارکیٹنگ:

سبسکرائبرز کی لسٹ بنائیں اور ان کے ساتھ مفید پروڈکٹ ریکمنڈیشنز شیئر کریں۔




---


4. ایمیزون کی پالیسیز پر عمل کریں


ڈسکلوژر (Disclosure):

لازمی بتائیں کہ آپ ایک ایمیزون ایسوسی ایٹ ہیں اور آپ کو کمیشن مل سکتا ہے۔


معیاری مواد:

گمراہ کن معلومات یا غلط لنکس دینے سے گریز کریں۔ خلاف ورزی پر اکاؤنٹ معطل ہو سکتا ہے۔




---


5. کارکردگی مانیٹر کریں اور بہتری لائیں


ڈیش بورڈ استعمال کریں:

ایمیزون ڈیش بورڈ کے ذریعے کلکس، کنورژنز، اور آمدنی مانیٹر کریں۔


اے/بی ٹیسٹنگ (A/B Testing):

مختلف مواد، پروڈکٹس، اور حکمتِ عملیوں کو آزما کر دیکھیں کہ کون سا زیادہ مؤثر ہے۔




---


6. ادائیگی حاصل کریں


ادائیگی کی حد:

ایمیزون کمیشن اس وقت ادا کرتا ہے جب آپ مخصوص حد تک کمائی کر لیں۔ ادائیگی کے طریقوں میں بینک ٹرانسفر، ایمیزون گفٹ کارڈ، یا چیک شامل ہیں۔


کمیشن ریٹ:

مختلف پروڈکٹ کیٹیگریز کے لیے کمیشن ریٹ مختلف ہوتا ہے، جو عام طور پر 1% سے 10% تک ہوتا ہے۔




---


کامیابی کے اہم نکات:


اپنے ناظرین کو سمجھیں:

وہ پروڈکٹس پروموٹ کریں جو آپ کے ناظرین کی دلچسپی سے مطابقت رکھتے ہوں۔


رجحانات پر نظر رکھیں:

موسمی یا خاص دنوں کی فروخت (جیسے بلیک فرائیڈے) سے فائدہ اٹھائیں۔


مؤثر اور ایماندار رہیں:

ایماندارانہ رائے دیں اور معیاری مواد فراہم کریں تاکہ صارفین کا اعتماد جیت سکیں۔


 خوابوں کا سودا






شہر کے ایک پرانے علاقے میں، جہاں گلیاں تنگ اور پرانی عمارتیں زمانے کی تھکن سے جھکی ہوئی تھیں، وہاں ریحان نام کا ایک نوجوان رہتا تھا۔ ریحان کی آنکھوں میں خواب بہت بڑے تھے، لیکن جیب میں ہمیشہ کچھ پیسے ہی ہوا کرتے۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے وہ دنیا میں اپنی پہچان بنا سکے۔


ریحان کے والد ایک پرانی کتابوں کی دکان چلاتے تھے۔ وہ دکان، جو شاید ہی کبھی کسی گاہک سے بھر پاتی تھی، لیکن ان کے والد کا کہنا تھا کہ "کتابیں سونے کی کان ہیں، بیٹا۔ جو انہیں سمجھ لے، وہ امیر ہو جاتا ہے۔" ریحان کو یہ بات اکثر مذاق لگتی، کیونکہ حقیقت تو یہ تھی کہ ان کے گھر کے حالات دن بہ دن بدتر ہوتے جا رہے تھے۔


ایک دن، جب ریحان دکان میں اکیلا تھا، ایک بوڑھا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی اور ہاتھ میں ایک پرانا سا بریف کیس۔ اس نے دکان کا جائزہ لیا اور ایک لمحے کے لیے ریحان کی طرف دیکھا۔ پھر وہ بولا، "مجھے ایک ایسی کتاب چاہیے، جو میرے خواب پورے کر دے۔"


ریحان کو یہ سن کر ہنسی آ گئی۔ "ایسی کتاب کہاں ہوتی ہے، بابا؟"


بوڑھے نے مسکرا کر کہا، "ہر کتاب میں خواب چھپے ہوتے ہیں، لیکن انہیں دیکھنے کے لیے آنکھ چاہیے۔"


یہ کہہ کر اس نے بریف کیس کھولا اور ایک پرانی، چمڑے کی جلد والی کتاب ریحان کے سامنے رکھ دی۔ "یہ لو، یہ تمہاری قسمت بدل سکتی ہے۔"


ریحان نے حیرانی سے کتاب لی اور بوڑھے کے جانے کے بعد اسے کھولا۔ صفحات پر کچھ نہ تھا—بس خالی سفید کاغذ۔ ریحان نے سوچا، "یہ تو مذاق تھا۔" لیکن جب اس نے کتاب کو دوبارہ بند کیا اور غور سے دیکھا، تو جلد پر ایک عجیب سا نقش ابھرتا نظر آیا۔


اس رات، ریحان کے خواب میں وہی بوڑھا آیا۔ اس نے کہا، "یہ کتاب خالی نہیں، ریحان۔ یہ تمہیں وہی دکھائے گی جو تم دیکھنا چاہتے ہو۔ لیکن یاد رکھو، ہر خواب کی ایک قیمت ہوتی ہے۔"


صبح جب ریحان جاگا تو اس کے دماغ میں ایک خیال تھا۔ اس نے دکان میں پڑی پرانی کتابوں کو نئی ترتیب دی، اور ہر کتاب پر ایک خواب کی قیمت لکھ دی۔ "یہ کتاب آپ کو خوشی دے گی"، "یہ کتاب آپ کو محبت کا راستہ دکھائے گی"—ہر کتاب پر ایک وعدہ تھا۔


شہر میں یہ بات پھیل گئی کہ ریحان کی دکان میں خواب بیچے جاتے ہیں۔ لوگ دور دور سے آنے لگے۔ دکان آباد ہو گئی، اور ریحان کے دن پھرنے لگے۔ لیکن ایک دن، وہی بوڑھا پھر آیا۔


"کیا تم نے اپنے خوابوں کی قیمت چکائی، ریحان؟"


ریحان نے چونک کر کہا، "آپ کا مطلب؟"


بوڑھے نے مسکرا کر کہا، "خواب بیچنے کے لیے اپنے خواب قربان کرنے پڑتے ہیں۔ تم نے اب تک کیا کھویا؟"


ریحان خاموش ہو گیا۔ اس نے سوچا، وہ اپنے خوابوں کی دکان میں کتنا مصروف ہو گیا تھا کہ اس نے اپنے اصل خواب کو ہی بھلا دیا تھا۔


بوڑھا چلا گیا، لیکن اس کی باتیں ریحان کے دل میں گونجتی رہیں۔ اگلے دن، ریحان نے دکان بند کر دی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خواب نہیں بیچے گا، بلکہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جئے گا۔


یہی زندگی کا سب سے بڑا سودا تھا۔


Monday, 18 November 2024

 



راه وفا کی صلیب پر از قلم کلثوم خان سواتی


قسط نمبر1


آج دوسرا دن تھا آسمان پہ روئ کی طرح سفید بادل تھے لیکن آسمان پر نیلا رنگ بہت اٹھ رہا تھا پرندوں کو بھی یہ موسم بھا رہا تھا تبھی غول در غول پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھول رہی تھی لان میں موجود سرخ سفید گلاب پر شبنم کے قطرے تھے اور سورج کی کرنیں پڑنے سے اسکے حسن کو دوبالا کر رہی تھیں


وہ کتنے ٹائم سے بالکونی سے حسین مناظر دیکھ رہی تھی جب نوراں نے خلل ڈالا


چھوٹی بی بی آپ کا فون ہے"


وہ چونکی اور اگلے ہی پل دھڑ دھڑ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں رکھے کریڈل سے ریسیور اٹھانے لگی


"بيلو 11ساریہ میں عاتکہ بول رہی ہوں تم کب


آؤ گی کتنے دن ویٹ کرنا ہے"


اراده جلدی کا ہے لیکن اب ماما تو مان


جائیں نا "


اوکے تم جلدی آنا سر مظہر نے کہا ہے


پرسوں جانا ہے"


"اوکے


اس نے بے دلی سے فون رکھا ساریہ اعجاز ترمذی کی اکلوتی اولاد تھی یونیورسٹی کی طرف سے پکنک کاموقع ملا تھا لیکن صباحت بیگم ساریہ کی جدائی کا سننا بھی گوارا نہیں کر سکتی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ہفتہ بعد گھر آتی اعجاز ترمذی بار بار سمجھا رہے تھے


بیگم وہ اب بچی نہیں ہے کہ اپنا


خیال نہ رکھ سکے


آپ کو کیا پتہ اعجاز وہ اپنا کھانا بھی وقت پر نہیں کھاتی ایسے میں اگر وہ بیمار ہوئی تو کون اس کا خیال


رکھے گا"ارے بیگم مجھے معلوم ہے آپ بہت


پریشان ہوتی ہیں لیکن ہمیں اس کی جزبات کا بھی خیال رکھنا ہو گا ایسے


اس میں خود اعتمادی بڑھے گی "


"آپ بھی بس بیٹی کی ہی سائڈ لیں"


انہوں نے صوفہ کشن گود میں لیا اور صوفے پر براجمان ہوئیں اور آنکھیں سختی سے میچ لیں اعجاز ترمزی مسکرانے لگے


کانچ کا خوبصورت گلاس وہ اپنے گلابکی پنکھڑیوں کی طرح سرخ لبوں سے


لگا رہی تھی اسکے آئفون کی بیل ہوئی


کال پک کر کے آئی فون کان سے لگایا اور خود گرنے والے انداز میں اپنے جہازی سائز بیڈ پر براجمان ہوئی


السَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ كدهر ہیں جناب اکیلے اکیلے پکنک منایا جا رہا ہے اور ہم ناچیزوں کو یاد تک نہیں


کیا


بھاڑ میں جاؤ تم تو میرا مذاق ہی


اڑاتے رہتے ہو مرو تم“


ساریہ غرائی اب وہ اٹھ کے بیٹھ گئمیری کیا مجال جو مہ پارہ کا پارہ ہائی کروں اچھا سیریسلی بتاؤ جاؤگی ؟“ فہد مسکراتے ہوۓ گویا ہوا


فہد" ماما جانے نہیں دیتی وہ کہتی ہیں میں بہت لاپرواہ ہوں کہیں کھو گئ تو کیا ہو گا اب تم بتاؤ میں دودھ پیتی بچی تو نہیں کہ خود کی کٹر نہ کر سکوں


وہ معصومیت سے گویا ہوئی تو فہد


بولا

Tuesday, 5 November 2024

جوان لڑکے کی محنت


 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں احمد نام کا ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا۔ احمد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، جہاں غربت اور وسائل کی کمی ہمیشہ اس کے اردگرد رہتی تھی۔ اس کے والد کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے اور وہ محنت مزدوری کے باوجود بھی مشکل سے گھر کا خرچہ پورا کر پاتے تھے۔


احمد ابھی صرف چودہ سال کا تھا لیکن اس کی سمجھداری اور ذمہ داری کی مثال سب دیتے تھے۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹائے گا اور کچھ کام کرکے کچھ پیسے کمانے کی کوشش کرے گا۔ یہ احمد کے لئے پہلی دفعہ تھا کہ وہ کسی کام کے لئے گھر سے باہر نکلا۔


وہ گاؤں کے بڑے شہر میں ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کام پر لگ گیا۔ اس کا کام برتن دھونا، ہوٹل کی صفائی کرنا اور گاہکوں کو پانی پیش کرنا تھا۔ احمد دن رات محنت کرتا، اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے، لیکن وہ تھکتا نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے خاندان کے لئے کچھ کرنے کا خواب تھا جو اسے آگے بڑھنے کی طاقت دیتا تھا۔


کچھ دن بعد جب احمد کو پہلی بار اپنی محنت کی کمائی ملی، تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ لیکن جب اس نے اپنے والد کو وہ پیسے دیے تو اس کے والد کے چہرے پر ایک عجیب اداسی چھا گئی۔ انہوں نے احمد کو گلے لگا کر کہا، "بیٹا، یہ تمہارے پڑھنے اور کھیلنے کے دن ہیں، تمہیں اتنی محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ وقت تمہارے مستقبل کو بنانے کا ہے۔"


یہ سن کر احمد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ زندگی کی یہ جدوجہد کتنی مشکل ہے، اور اس کے والد نے اب تک کتنی قربانیاں دی ہیں۔ احمد نے عہد کیا کہ وہ خوب محنت کرے گا اور اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے خوابوں کو بھی پورا کرے گا۔


اس دن کے بعد احمد نے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے دوگنی محنت شروع کر دی۔

Monday, 4 November 2024

عسق بے مہذب

اس وقت مری میں شدید برف باری ہو رہی تھی جب وہ اپنی کلاس میں بیٹھی کھڑکی سے جھانک رہی تھی۔ کالج سے کچھ
فاصلے پر سڑک پر چلتے لوگ نمایاں نظر آرہے تھے ۔۔۔ سب لوگ برف باری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ سڑک
کی دونوں جانب درختوں پر پڑھی برف یوں معلوم ہوتی جیسے کوئی سفید چادر تنی ہو۔۔۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کو برف
کے گولے بنا کر مار رہے تھے۔۔۔ وہ بڑی دلچسپی سے یہ سب مناظر دیکھ کر خوش کم دکھی زیادہ ہورہی تھی، جب اس کی
کلاس فیلو باہر اس کا انتظار کرتے ہوئے اندر آئی۔
"نائگا۔۔۔ آج کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں ؟ میں کب سے تمہار اویٹ کر رہی ہوں۔۔۔ چلو نیچے چلتے ہیں۔
"
سمیرا نے اس کا ہاتھ تھاما اور زبردستی اسے باہر لے گئی ۔۔۔ نائکا کلاس ون سے مری کے ایک بورڈنگ سکول میں رہی
تھی لیکن میٹرک کے بعد اسے سکول چھوڑ کر کالج آنا پڑا۔ ایک ہفتہ پہلے ہی اس کی ایف۔ایس۔ سی کی کلاسز اسٹارٹ
ہوئی تھیں۔ مہینے میں دو تین بار وہ اسلام آباد کا چکر ضرور لگاتی۔
بتاؤ، کیا کھاؤ گی ؟ سمیرا اس کا ہاتھ تھامے کیفے ٹیریالے آئی۔ "
" مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔اگر تمہیں کچھ کھانا ہے تو کھاسکتی ہو۔
"
نائکا نے قدرے بے رخی سے کہا اور گردن دوسری جانب پھیر لی۔
آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ؟ جب دیکھو کھڑکی کے ساتھ ہی چپٹی رہتی ہو۔۔۔اتنے سالوں سے مری میں رہ رہی "
" ہو پھر بھی برف باری ایسے دیکھتی ہو گویا پہلی بار دیکھ رہی ہو۔
سمیرا نے حیرت سے پوچھا۔ اسے نائکا کی بے رخی بہت ناگوار گزری تھی۔
میں صرف برف دیکھنے کے لیئے نہیں مرتی۔ " نائکا نے سابقہ لہجے میں کہا۔ وہ سمیرا کا چہرہ نہیں دیکھ رہی تھی۔
"
اچھا۔ تو پھر کس پہ مرتی ہو ؟ بتاؤ۔۔۔ "سمیرا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر نا سکا جو اہا کچھ نہیں بول پائی۔
"
نائگا۔۔۔ گزرا ہوا وقت کبھی بھی واپس نہیں آسکتا۔۔۔ پلیز اب تم بھی بھول جاؤ سب کچھ ۔۔۔ زندگی بہت حسین '
ہے اسے ایسے ضائع مت کرو، پرانی یادیں نئے لوگوں کے ساتھ تازہ کرو۔۔۔ وہ سب کرو جو تم کرنا چاہتی تھی اپنی دنیا چند
لوگوں تک محمد ور نہ کر رکھو۔۔۔ اور اچھی یادوں کو یاد کر کے خوش ہوا جاتا ہے نا کہ مایوس پلیز بدلو خود کو ۔ "سمیرا نے نرم
لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
کبھی کبھی بہت اچھی یادیں بھی بہت بری لگتی ہیں۔۔۔ جنہیں یاد کر کے صرف تکلیف ہوتی ہے میں کیسے بھول جاؤں
انہیں۔۔۔ میری زندگی سے جڑی ہر چیز مجھے ان کی یاد دلاتی ہے۔ وہ بورڈنگ سکول، وہ چرچ جس کے لان میں ہم کھیلتے
تھے ، یہ برف جس پہ ہم ایک دوسرے سے لڑتے تھے ، وہ سڑکیں جہاں ہم ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے تھے، وہ گھر
جہاں ہم اتنے سالوں سے ایک ساتھ رہے تھے ، شاید موت سے پہلے میں یہ سب نہیں بھول سکتی۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔"
"نائکا کی آنکھوں کے گوشے نم ہو چکے تھے اور ناک سرخ ہو رہی تھی۔ مری کا کونہ کونہ ایک ساتھ دیکھا تھا پھر مری میں
رہتے ہوئے وہ کیسے ان کو بھول سکتی تھی۔
"
پتہ نہیں ان
کو تم یاد بھی ہو گی یا نہیں، اتنے سالوں میں تو ان کو مری بھی بھول چکا ہو گا۔۔۔نئے دوست مل گئے ہوں
گے ، اور سٹیفنس تو ویسے بھی تم سے بڑا ہے ، دو تین سال۔۔۔ کراچی جانے کے بعد جلد ہی اپنی نئی دنیا میں مصروف ہو گیا
ہو گا۔ "سمیرا
نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ لوگ مجھے کبھی نہیں بھول سکتے، مجھے پورا یقین ہے وہ لوگ بھی مجھے بہت یاد کرتے ہوں گے۔۔۔ان کی زندگی میں "
چاہے جتنے مرضی نئے لوگ آجائیں وہ مجھے کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔۔۔ مجھے یاد ہے جب ان کی نانوان کو زبردستی اپنے
ساتھ کراچی لیکر گئی تھیں، بہت روئے تھے دونوں۔۔۔ پتہ نہیں کیسے ایڈجسٹ کیا ہو گا ان لوگوں نے خود کو۔۔۔ نئی جگہ
نئے ماحول میں۔ "نائکا کی آنکھوں سے آنسو قطرہ قطرہ موتیوں کی مانند گرنے لگے تھے۔
نا ئگا۔۔اچھے کی امید رکھو انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا، اگر اللہ نے چاہا تو وہ لوگ کبھی نہ کبھی واپس آجائیں"
گے۔۔۔ایسے رونے کا کوئی فائدہ نہیں، بس دعا کیا کرو کہ وہ جہاں بھی رہیں خوش رہیں۔۔۔ چلواب کلاس میں چلتے ہیں
لیکچر اسٹارٹ ہونے والا ہے۔ "سمیرا نے اس کے آنسو پونچھے اور اپنی نشست سے اٹھی۔ نائکا نے بھی اثبات میں سر ہلایا
اور سمیرا کے ساتھ کیفے ٹیریا سے باہر چلی گئی۔
سترہ سالہ محمد عیسی علی جو اپنی گوری چمکتی دھمکتی رنگت لئے اپنی در میانی مگر روشن پیشانی پہ نرم سیاہ بال جو دھوپ میں
ڈارک براؤن شیڈ دیتے تھے سر کائے بڑے سے لاؤنج میں صوفے پہ بیٹھا تھا۔ وہ اپنی گہری شربتی لبی آنکھوں سے
سامنے بیٹھے شخص جو کہ اس کے والد محترم تھے، کو پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل گھور رہا تھا۔ کچھ بولنا چاہتا تھا مگر ہمت
ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔ بالآخر سر جھٹک کر اس نے بڑی ہمت باندھی اور اپنے لب کھولے۔



Einstein Turned Down Israel Presidency

 Did you Know🤔 As a Nobel Prize-winning physicist and the creator of the world's most famous equation, Albert Einstein had an impressiv...